اتوار، 24 اگست، 2014

مقابل ہے آئینہ

راک فیلر سینٹر میں پیش آنے والا یہ واقعہ مجھے ایک دوست نے سنایا۔ راک فیلر سکوائر امریکہ کے شہر نیویارک کی سب سے مہنگی جگہ ہے۔ راک فیلر امریکہ کا امیر ترین شخص تھا۔ تاجر ٗ صنعتکار اور بینکر۔ یہ سنٹر اسی کے نام سے منسوب ہے۔ یہ واقعہ اس سنٹرکی پچاسویں منزل پر ایک دفتر میں رونما ہوا۔میرے دوست کا کہنا ہے کہ 2003 میں اسے کولمبیا یونیورسٹی کے ایک تربیتی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ اس پروگرام میں بیس کے قریب افراد شامل تھے۔ مختلف ممالک سے آنے والے ان افراد کو انتظامی امور کی تربیت دی جارہی تھی۔ علم ٗ سمجھ بوجھ اورتجربہ ۔ یہ آج کے نہیں مستقبل کے لیڈرز تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں چند ہفتے گذارنے کے بعد ان لوگوں کو امریکہ کے کاروباری اداروں کا وزٹ کروایا گیاتاکہ یہ لوگ دیکھ سکیں کہ عملی دنیا میں کیا ہوتا ہے۔ کاروبار کس طرح پھیلتا ہے۔ اس گروپ کی پہلی منزل راک فیلر سنٹر کی پچاسویں منزل پہ واقع جنرل الیکٹرک کمپنی GECکا دفتر تھا۔اس کمپنی کے کل اثاثہ جات 130بلین ڈالرز سے زیادہ ہیں۔ یہ اثاثے بہت سے ملکوں کی مجموعی آمدنی سے بھی  بڑھ کے ہیں۔ اس کمپنی کا کاروبار سو ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ امریکہ ٗ یورپ ٗ افریقہ ٗ ایشیا اور برِاعظم آسٹریلیا۔ دنیا بھر میں اس کمپنی کے پانچ لاکھ ملازمین ہیں۔ یہ کمپنی نہیں ایک دنیا ہے۔ سمندروں ٗ میدانوں اور صحراؤں تک پھیلی ہوئی۔ سوئی سے لے کر جہاز تک کوئی ایسی شے نہیں جو اس کمپنی کے کارخانوں میں نہ بنتی ہو۔ اس کمپنی کا پینتالیس سالہ چیف ایگزیکٹو سٹیورڈ لیوس دنیا کے اہم افراد میں شمار ہوتا ہے۔ یہ شخص امریکہ کے صدر سے کئی گنا زیادہ تنخواہ لیتا ے۔ پانچ گنا ٗ دس گنا ٗ بیس گنا۔ شاید اس سے بھی زیادہ۔ اس شخص کا ایک ایک لمحہ کئی کئی ہزار ڈالر کا ہے۔ اس سے ملنے کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سٹیورڈ لیوس نے کولمبیا یونیورسٹی سے آنے والے مہمانوں کو اپنی کمپنی سے متعارف کروایا۔ اس کی مصنوعات ٗ اس کے لوگ ٗ اس کی حکمتِ عملی اور اس کا مستقبل۔ اس نے جب ان سو ممالک کی فہرست ان کے سامنے رکھی جہاں اس کی کمپنی کام کرتی ہے تو میرے دوست کا تجسس بڑھنے لگا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ پاکستان میں اس کمپنی کاکاروبار کس قدر وسیع ہے لیکن اسے یہ دیکھ کر رنج ہوا کہ سٹیورڈ کی کمپنی پاکستان میں کام نہیں کرتی۔وہ خاموشی سے سٹیورڈ کی گفتگو سنتا رہا۔ رنجیدہ اور فکرمند۔ جب سٹیورڈ کی گفتگو ختم ہوئی تو سوال اور جواب کا موقعہ آیا۔میرا دوست اس موقعہ پرخاموش نہ رہ سکا۔ اس نے مائیک سنبھالا اور اپنا تعارف کروانے کے بعد اپنے ملک کا تعارف کروایا اور پھر صرف ایک سوال پوچھا:
Mr. Steward! how can we make Pakistan an attractive place for you?
میرے دوست کے سوال میں ہلکی سی شکایت بھی تھی۔ سٹیورڈ یہ سوال سن کر مسکرانے لگا۔ ’’مائی ڈیر! جب میں مہمانوں کی فہرست دیکھ رہا تھا تو اس فہرست میں ایک پاکستانی کا نام دیکھ کر میرے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھا تھا۔ پاکستان ہمارے لئے ایک اہم ملک ہے لیکن ہم پاکستان میں کاروبار کیوں نہیں کرتے۔ میری کمپنی کے نزدیک اس کی تین وجوہات ہیں۔کیا آپ سننا چاہیں گے‘‘۔ ’’کیوں نہیں‘‘۔ میرے دوست نے اشتیاق سے کہا۔’’ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آپ کے ہاں ہمارے معیار کے مطابق  Human Resourceموجود نہیں۔ وہ ذمہ دار اور دیانت دار لوگ جو کاروبار کو بامِ عروج پہ لے جائیں۔ محنتی ٗ ذہین اور باصلاحیت۔‘‘ سٹیورڈ نے کہنا شروع کیا۔ ’’ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ نہیں مانگتے لیکن وہ کم از کم اس معیار کے حامل تو ہوں جس معیار کے لوگ ہمیں دوسرے ممالک میں مل جاتے ہیں۔ کام نہ کرنے کی دوسری وجہ امنِ عامہ اور سیاسی عدم استحکام ہے ۔ امن اور سیاسی استحکام کے بغیر کاروبار نہیں ہوتا۔تیسری اور شاید سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میری کمپنی کی دولت اتنی فالتو نہیں کہ میں آپ کے ہاں کاروبار بھی کروں اور لوگوں کوکمیشن بھی دوں۔‘‘ میرے دوست کے بقول سٹیورڈ کے اصل الفاظ یوں تھے:
 I am accountable to share holders of my company. I have no extra 
money to bribe your leadership.
میرا دوست سٹیورڈ لوئیس کا یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا۔ اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہ تھا۔ گیارہ سال پہلے جب اس نے یہ واقعہ مجھے سنایا تو میں بھی خاموش ہو گیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی کچھ کہنے کے قابل نہ ہوں گے۔ آئینہ مقابل ہو تو انسان کہہ بھی کیا سکتا ہے۔ انسانی وسائل ٗ سیاسی استحکام اور دیانتدارقوم۔ جنرل الیکٹرک کمپنی کو نجانے کب تک انتظار کرنا پڑے گا۔ میں تو پرامید ہوں۔ آپ کو بھی پرامید ہونا چاہیے۔
-
ڈاکٹرامجد ثاقب-

پیر، 18 اگست، 2014

نیکی کا ایک لمحہ

کب سورج نکل آئے کب بارش ہونے لگے۔ وہ بس ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جس کے بعد سب بدل جاتا ہے۔ 
یہ بات مجھے مائکل ڈیوڈ نامی ایک سیاہ فام امریکی نے بتائی۔ مائکل ڈیوڈ مجھے واشنگٹن کے مشہور چرچ نیشنل کیتھڈرل کی سیڑھیوں پہ ملا۔ وہ اس روز وہاں لوگوں میں چاکلیٹ بانٹ رہا تھا۔ مجھے بھی اس نے کچھ چاکلیٹ دیں۔ میں نے اسے بتایا کہ میں قریب ہی واقع امیریکن یونی ورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ اس نے مجھ سے ملنے کا وعدہ کرلیا اور کچھ دنوں بعد وہ واقعی یونی ورسٹی چلا آیا۔ ہماری دوستی ہونے لگی۔ وہ جب بھی کیتھڈرل آتا‘ مجھ سے ملنے یونی ورسٹی پہنچ جاتا۔ اس نے مجھے واشنگٹن شہر کی اندرونی کہانیاں بھی سنائیں‘ جرم‘ قتل و غارت اور نشہ۔ اس کی اپنی کہانی بھی ایسی ہی تھی لیکن اس کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا آیا کہ اس کے بعد سب کچھ بدل گیا۔
 اس کا کہنا تھا کہ یہ لمحہ ہر شخص کی زندگی میں آتا ہے لیکن لوگ اسے پہچان نہیں پاتے۔ مائکل کہنے لگا‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں بدچلن‘ بدمعاش اور آوارہ تھا‘ بے کار ‘ بے گھر ‘ بے مقصد۔نشے میں دھت رہنااور جرم کرنا یہی میرا معمول تھا۔ وہ دسمبر کی ایک یخ بستہ رات تھی۔ میں بھوک کے عالم میں ادھر ادھر دھکے کھاتا شہر کے سب سے بڑے چرچ جا پہنچا کہ شاید کھانے کو کچھ مل جائے۔ میرے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی ۔ فادر نے اس حالت میں مجھے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مجبوراً میں نے وہ رات چرچ کی سیڑھیوں پہ گزار دی۔ اس انکار نے مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیا۔ کیا مجھے خدا کے گھر میں بھی پناہ نہیں مل سکتی۔ صبح ہوئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں کوئی جرم نہ کروں گا‘ کوئی گناہ نہ کروں گا۔ میں نے بھیک سے بھی تائب ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ مجھے لگا ‘یہ بھی گناہ ہے۔ بس وہ ایک لمحہ جب فادر نے مجھے بے گانگی سے دیکھا اور میرے اندر تبدیلی کی خواہش پیدا ہوئی۔
 میں وہاں سے اٹھا اور ایک کلینک چلا گیا۔ میری مضبوط قوت ارادی کام آئی اور میں نے نشے کی لعنت سے نجات پالی۔  نئی زندگی شروع کرنے کے لیے میں نے کئی جگہ نوکری کی درخواست دی ۔ ایک روز ایک ہوٹل میں کام مل گیا‘ باقاعدہ تن خواہ‘ کھانا پینا۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔اسی دوران ایک روز ایک بہت عجیب ساواقعہ ہوا۔ ہوٹل میں اس روز کوئی تقریب تھی لیکن مہمان بہت کم آئے۔ بہت سا کھانا بچ گیا۔ میرے منیجر کے لیے مشکل ہوگئی کہ وہ اس کھانے کا کیا کرے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ کوئی حل بتاؤ۔ مجھے اپنے نشہ کرنے والے ‘ بے گھر دوست یاد آنے لگے۔ میں نے کہا‘ میں یہ کھانا ایک گھنٹے میں ختم کرسکتا ہوں۔ منیجر ہنسنے لگا لیکن جب میں نے اپنا آئیڈیا بتایا تو وہ راضی ہوگیا۔ اس نے مجھے ہوٹل کا ٹرک دیا اور میں نے سارا کھانا اس میں رکھوادیا۔ دو تین سو لوگوں کا کھانا تو ہوگا۔ میں شہرکے مختلف حصوں میں ٹرک بھگاتا رہا۔مجھے علم تھا کہ اس کھانے کے مستحق کہاں کہاں رہتے ہیں۔ تین تین چارچار لوگوں کا کھانا ایک ایک شخص کے حوالے کیا۔ میرے پرانے دوست‘ ان کے چہروں پہ کھلی ہوئی مسکراہٹ مجھے عجیب سی خوشی دے رہی تھی۔ میں نے ان کی تصویریں بھی لیں۔ واپس پہنچ کر یہ تصویریں میں نے منیجر کو دکھائیں تو وہ حیران رہ گیا۔ وہ ایک دردمند انسان تھا۔ اس نے یہ بات انتظامیہ کے دوسرے لوگوں سے کی اور سب نے فیصلہ کیا کہ بچے کھچے کھانے کو کوڑے میں پھینکنے کے بجائے اسی طرح استعمال میں لائیں گے ۔
 واشنگٹن میں اس طرح کے اور بھی بہت سے ہوٹل تھے۔دس ہوٹلوں نے اس کام میں شامل ہونے کی ہامی بھر لی۔ یوں بے گھر اور بے سہارا لوگوں کے لیے کھانے کا مستقل بندوبست ہو گیا۔ اس پورے پراجیکٹ کا نام
Dinner Party  Michael's   رکھا گیا۔ گویا یہ کام میرے نام ہی سے منسوب ہوگیا۔ جو آدمی کل تک خود بھوکا سوتا تھا‘ اس کے نام سے سیکڑوں لوگ کھانا کھانے لگے ۔ اب ہر روز رات کو واشنگٹن کے ہوٹلوں سے ٹرک نکلتے ہیں اور ان سیکڑوں لوگوں کو کھانا پہنچ جاتا ہے جو نشے کے عالم میں کھوئے رہتے تھے۔ کبھی میں بھی انھی جیسا تھا لیکن خداوند نے میری رہ نمائی کی اور مجھے راستہ مل گیا۔ اسی چرچ کی سیڑھیوں پر جہاں میں ساری رات ٹھٹھرتا رہا ‘میں نے بے شمار لوگوں کو کھانا پیش کیا ہے۔ اسی پادری کے سامنے جس نے مجھے اپنانے سے انکار کردیا تھا۔فادر نے بے شک پناہ نہ دی لیکن خداوند نے پناہ دے دی۔ خداوند تو یہ کہتا ہے کہ جو گناہ گار ہیں‘ انھیں میرے قریب لاؤ کہ انھیں میری زیادہ ضرورت ہے۔ وہ یخ بستہ رات نہ ہوتی تو شاید میں ابھی تک بدچلن‘ بدمعاش اور آوارہ ہوتا‘ نشے میں دھت رہتا‘  وارداتیں کرتا۔ کسے خبر گناہ کی اندھی گلی میں کب راستہ مل جائے ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ
"Every Saint has a past and every sinner has a future."
کب سورج نکل آئے ‘ کب بارش ہونے لگے۔ وہ بس ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جس کے بعد یہ سب بدل جاتا ہے۔

پیر، 11 اگست، 2014

ہیرے اور جواہرات

کبھی کبھی مجھے کچھ گم نام سپاہی یادآتے ہیں ۔وہ گم نام سپاہی جن کے سینے پہ کوئی تمغا آویزاں نہیں ہوتا‘جن پہ کوئی کہانی نہیں بنتی‘ کوئی کتاب نہیں لکھی جاتی۔ وہ رات ٗ دن‘ سختیوں سے بے نیاز اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔ انھیں نہ تو شہرت کی پروا ہے نہ نام کی۔ ان کی محنت‘ ان کی وفا‘یہ سب ناقا بلِ یقین ہے۔ وہ کام کو عبادت سمجھتے ہیں۔ محمد اسلم جب پہلے دن ملازمت کے لیے آیا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اتنی خوبیوں کا مالک ہوگا ۔ اس نے جس والہانہ جذبے کا مظاہرہ کیا‘ وہ ہمارے لیے حیرت کا باعث بن گیا ۔ اس کی کارکردگی مثالی تھی ۔وہ ایک بہترین منتظم ثابت ہوا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اس کے پاس آئے اور وہ اس کی محبت میں گرفتار نہ ہو‘ خوش مزاج ‘ خوش اخلاق‘ خوش گفتار۔ اس کی تعلیم میٹرک ہے لیکن ایک منتظم کے لیے جو بھی خصوصیات درکار ہیں‘ وہ اس کے ہاں بخوبی موجود ہیں۔ یہ سب کچھ اس نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے‘ اچھی سوچ‘ اچھا عمل ‘ اچھی گفت گو۔ وقت کیسے استعمال کرنا ہے‘ مسائل کیسے سلجھانے ہیں‘لوگوں کو ساتھ لے کے کیسے چلنا ہے۔ محمد اسلم وعظ و نصیحت کے انبار لگانے پہ یقین نہیں رکھتا ۔ وہ عمل کی راہ پہ چلتا ہے۔ وہ ایک روحانی آدمی بھی ہے۔ میں نے ایک بار اس سے کہا کہ محنت تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن تمھاری طرح کام یاب نہیں ہوتے ۔تمھاری کام یابی کا راز کیا ہے۔ میں ’’درود شریف‘‘ پڑھتا ہوں ۔ محمد اسلم نے پوری سچائی سے جواب دیا۔’’ سنا ہے‘ علامہ اقبالؒ نے ایک کروڑ بار درود شریف پڑھا تو وہ شاعر سے شاعرِ مشرق بن گئے‘‘۔ اس نے جواب دیا۔’’ تاثیر صرف محنت سے نہیں ۔ تاثیر تو کرم اور نظر سے آتی ہے۔ درود شریف پڑ ھنے کے بعد میں جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں‘ وہ کام ہو جاتا ہے۔ سارا دن مجھے ایک عجیب سی کیفیت گھیرے میں لیے رکھتی ہے‘ نہ کوئی خوف ‘ نہ بے چینی۔‘‘  محمد اسلم ہر وقت درود شریف کا ورد کرتا ہے۔میں اسے دیکھتا ہوں تو منیر نیازی کا یہ شعر یاد آنے لگتا ہے     ؂
میں کہ اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم ِ محمد شاد رکھتا ہے مجھے
 میں محمد اسلم کی طرح کے کئی اور لوگوں کو بھی جانتا ہوں۔ ایسے ہی ایک شخص کانام ندیم ڈیوڈ ہے۔ ندیم ڈیوڈ بھی اجلے کردار کا مالک ہے۔ نہ اس نے کبھی جھوٹ بولا‘ نہ کسی سے جھگڑا کیا‘ نہ کسی کا دل دکھایا‘ نہ کسی کا حق مارا۔سکول نہ جانے کے باوجود وہ حسنِ تربیت سے مالا مال ہے۔ کیسے؟ یہ بھید اللہ ہی جانتا ہے۔ 
اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں فادر جوزف نے دیا ۔ فادر نے کہا‘ یہ بہت ہیرا آدمی ہے لیکن وہ اس سے بھی بڑھ کر نکلا ۔ فادر نے تعریف میں بخل سے کام لیا تھا۔وہ ایسا آدمی ہے جسے کوئی ذاتی غرض ہی نہیں‘ جو تن خواہ لیتے ہوئے بھی جھجکنے لگتا ہے۔ ٹوٹے پھوٹے گھر‘ خستہ حال گلیاں‘ کیچڑ سے اٹے ہوئے محلے ‘ جہاں مکھیوں ‘ مچھروں ‘ غلاظت اور بدبو کے سوا اور کیا ہے۔ ندیم ڈیوڈ‘ قینچی چپل پہن کے ان خارزار راستوں پہ سفر کرتا رہا۔ وہ رات کو گھر پہنچتا تو اس کی ایٹرھیوں سے خون رستا اوروہ درد کی وجہ سے ساری رات سو نہ سکتالیکن اگلی صبح زخموں پر پٹی باندھ کر پھر دفتر پہنچ جاتا۔ وہ مشکلیں دیکھ کے خوش ہوتا ہے۔اس نے اپنے لیے کبھی کچھ نہیں مانگا ۔ گرمیوں کی چلچلاتی ہوئی دھوپ‘ لُو اور پھر حبس‘ برسات میں ہرطرف برستاہو اپانی اورندیم ڈیوڈ۔ رزقِ حلال اگر ہے‘ تو یہی ہے۔
کبھی کبھی اسے افسوس ہوتا ہے کہ وہ پڑھا لکھا نہیں۔ لیکن تعلیم نہیں تو کیا‘ درد بھی تو انسان کو کام یابی کے سارے گر سکھا دیتا ہے۔ ندیم ڈیوڈ ایک دیوانہ ہے۔ اس کا دیوانہ پن اس کے کام سے جھلکتا ہے۔  وہ اپنے ادارے کے ذریعے اب تک ہزارہا لوگوں کی مدد کر چکا ہے۔ اس کے دامن میں ان گنت لوگوں کے آنسو جمع ہیں۔ یہ آنسو نہیں‘ موتی ہیں‘ہیرے جواہرات سے بڑھ کر۔ مجھے یقین ہے کہ ایک روزجب اللہ کا دربار لگے گا تو ان موتیوں کی چمک لوگوں کی نگاہیں خیرہ کردے گی۔یہ موتی اس کے لیے نجات کا ذریعہ بن جائیں گے۔ آیئے ہم بھی کوشش کریں کہ ہمارے دامن میں کچھ موتی جمع ہوجائیں۔ ہزاروں نہیں بس چند ایک۔

پیر، 4 اگست، 2014

عید کی خوشیاں

نصف رات گزر چکی تھی۔ کئی بار ہم خود سونا نہیں چاہتے اور کئی بار کوئی اور سونے نہیں دیتا۔ یہ تو یوں بھی چاند رات تھی۔ ہر طرف خوشیاں‘ شادیانے ‘ شور شرابا۔ ایسے میں تو نیند اور بھی دور ہو گئی۔ مجھے ایک کہانی یاد آنے لگی۔ بہت دور ایک نیم تاریک شہر کی نیم تاریک گلیاں‘ ان گلیوں میں رہنے والی ایک بہادر عورت جس کی یاد کسی ستارے سے کم نہیں۔شاید وہ عورت اوراس کی جدوجہد مجھے اس لیے بھی یاد آرہی ہے کہ کل عید ہے۔
بشریٰ نامی اس عورت کا تین مرلے کا اپنا گھر ہے جہاں وہ‘ اس کا میاں اور بچے‘ سب مل جل کر رہتے تھے ‘خوش و خرم۔اس کا خاوند سبزی منڈی میں کام کرتا اور دس ٗ پندرہ ہزار ہر مہینے کما لیتا۔ بچے سکول جاتے اور وہ گھر کا کام کاج سنبھالتی۔ اس کا کہنا تھا کہ ان کا شمار محلے کے خوش حال گھرانوں میں ہوتا ٗ پھر اچانک ایک روز بیماری نے اس کے گھر کا راستہ دیکھا اور اس کے میاں پہ فالج کا حملہ ہوا۔ اس حملے کے بعد اس کا نچلا دھڑ مکمل بے کار ہوگیا۔ ہر طرف ایک قیامت سی ٹوٹ پڑی۔ نہ وہ چل پھر سکتا نہ اٹھ سکتا تھا۔ گھر میں جو کچھ تھا ‘ علاج پہ لگ گیا۔ صرف دوکمروں کا مکان باقی رہ گیا۔ کوئی رشتے دار ساتھ دینے کے قابل نہ تھا۔ وہ خود بھی پڑھی لکھی نہ تھی کہ کہیں نوکری کر سکتی۔ بہت سوچا ٗ بھاگ دوڑ بھی کی لیکن کوئی بات نہ بنی۔ کھانا ٗ پینا ٗ خاوند کی ادویات‘ گھر کا بل‘ وہ کہاں جائے ٗ کس کے دَر پہ دستک دے۔ بے بسی اور محرومی نے اسے اک دشتِ بے کراں میں لاپھینکا۔ اسی کش مکش میں وہ بلاسود قرضوں کے ادارے اخوت کے پاس پہنچی۔ وہ دفتر میں بیٹھ کر ان لوگوں کو دیکھتی رہی جو وہاں قرضہ لینے آتے‘ اپنی مشکلات بتاتے اور پھر کوئی نہ کوئی حل پاکر مطمئن ہوکے واپس چلے جاتے ۔ اسے بھی راستہ نظر آگیا۔ پندرہ ہزار کا قرضہ ٗ جس میں سے آٹھ ہزار کی ریڑھی اور سات ہزار کی سبزی ٗ پھل اور ترازو۔ یہ سب کچھ اسے سبزی منڈی سے مل گیا۔ سبزی منڈی اس کے گھر کے قریب ہی واقع تھی۔ اب وہ ہر روز منڈی سے کچھ سبزی‘ کچھ پھل لاتی ہے‘ انھیں ریڑھی پہ رکھتی ہے اور پھر اپنے خاوند کو ریڑھی پہ سوار کر کے ریڑھی کو گھر کے پاس واقع بازار میں لے جاتی ہے۔ باقی کام خاوند کرتا ہے۔ اس کا نچلا دھڑ معذور ہے تو کیا ہوا ٗ ہاتھ تو سلامت ہیں۔ وہ ریڑھی پہ بیٹھے بیٹھے سبزی اور پھل بیچتا ہے۔ لوگ اچھی قیمت دے دیتے ہیں۔ سہ پہر تک ریڑھی خالی ہو جاتی ہے۔ بشریٰ واپس آکر ریڑھی دھکیلتی ہوئی گھر لے جاتی ہے۔ ہر روز پانچ سے سات سو روپے بچ جاتے ہیں۔ دو ٗ تین ماہ کے اندر ہی سارے معاملات بہتر ہو نے لگے۔ بچے پھر سے سکول پہنچ گئے۔ ادویات بھی مل گئیں۔ گھر کا خرچہ بھی نکلنے لگا۔ وہ ہر روز جب معذور خاوند کو ریڑھی پر بٹھا کر باہر نکلتی ہے تو ایک نیا عزم اس کے ہم رکاب ہوتا ہے۔ اسے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ خیرات نہیں مانگی۔’’کیا یہ معمولی بات  ہے ‘‘۔ جب اس نے یہ بات مجھے کہی تو میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ اسے یقین ہے کہ ایک روز اس کے خاوند کا علاج بھی ہو جائے گا۔ ’’اب مجھے راستہ مل گیا ہے۔‘‘ اس کا اعتماد اور حوصلہ قابلِ تعریف تھا ۔میرے لیے یہ کہانی بھی عید ہی کی طرح تھی۔
 زندگی کی حقیقت سے کشید کی ہوئی یہ کہانی‘ ایسی کہانیاں ہر گلی محلے میں بکھری پڑی ہیں۔ افسوس! ہم کہانیاں پڑھتے ہی نہیں۔ ہم اپنی ذات سے باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ہم جانتے ہی نہیں کہ کوئی کتنا مجبور ہے۔ وقت کے گرداب میں کس طرح ڈوب رہا ہے۔شاید وہ وقت بہت دور نہیں جب ہم سے پوچھا جائے گا کہ ہماراہم سایہ کس حال میں تھا۔ بھوکا تھا تو کیوں؟ اداس اور غم زدہ تھا تو کیوں؟ محبت اور توجہ کا متلاشی تھا تو کیوں؟ خوش حال بستیوں کے ساتھ جو کچی بستی تھی‘ وہاں زندگی کیسے بسر ہو رہی تھی۔ شہر سے بہت دور نیم تاریک شہر کی نیم تاریک گلیاں‘ان گلیوں میں رہنے والی ایک بہادر عورت جس کی یاد کسی ستارے سے کم نہیں۔ رات کا باقی حصہ اتنا بوجھل نہ تھا۔عید بھی اتنی بوجھل نہیں گذری۔

جمعہ، 1 اگست، 2014

مال کے غلام

مالک وہ ہوتا ہے جو اپنا مال بانٹ دیتا ہے اور غلام وہ ہے جو اسے سنبھال کے رکھتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتا لیکن اس بات پر غور کرنے سے پہلے ایک واقعہ۔
مدینہ منورہ اس روز گہری اور پُر سکون خاموشی میں ڈوباہوا تھا۔اچانک لوگوں کوشور سنائی دیا۔یہ ایک لمبے چوڑے قافلے کی خبرتھی۔ لوگوں نے پوچھاآج مدینہ میں کیا ہوگیا ہے؟ جواب ملا یہ عبدالرحمن بن عوفؓ کا قافلہ ہے جو شام سے مال تجارت لے کر آیا ہے۔کیاقافلہ اتنا بڑا ہے؟ لوگوں نے پوچھا: ہاں! یہ قافلہ سات سو اونٹوں پر مشتمل ہے اور یہ سارا سامان مدینہ کے غربا میں تقسیم ہو گا! حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ۔ اپنے عہد میں جزیرہ نمائے عرب کے سب سے مالدار تاجر۔۔۔ آپؓ کہا کرتے تھے کہ ’’ میں اگر پتھر اٹھاتا ہوں تو اس کے نیچے سونا اور چاندی پاتا ہوں‘‘۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اپنی زندگی کا آغاز غربت سے کیا۔ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے اور مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے جناب عبدالرحمن بن عوفؓ کو حضرت سعد بن ربیع ؓ کا بھائی بنایا۔ ’’سعد نے عبدالرحمن سے کہا: بھائی ! میں مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں، میرا آدھا مال لے لو، اور میری دو بیویاں ہیں جو تمہیں پسند آئے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں تم اس سے شادی کرلو‘‘۔
عبدالرحمن بن عوفؓ نے ان سے کہا:’’اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و عیال اور مال میں برکت فرمائے ! مجھے تم صرف بازار کی راہ دکھا دو۔‘‘ پھر آپؓ بازار گئے، کچھ مال خرید کر فروخت کیا اور نفع کما لیا۔آپؓ نے ایک روز اپنے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ’’ اے ابن عوف! تم دولت مند ہو ،تم سست روی سے جنت میں داخل ہو گے۔ لہٰذا اللہ کو قرض دو ،تمہارے قدم کھول دیے جائیں گے‘‘ جس روز سے آپؓ نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ نصیحت بھرے کلمات سنے ، آپؓ اپنے رب کو قرض حسنہ دینے لگے اور اللہ بھی اس کو کئی گنا بڑھاتا رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کا ارادہ فرمایا تو صحابہ کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ صدقہ و انفاق کرنے والے اس اولین گروہ میں شامل تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے عطیہ کی وصولی کے بعد جناب عبدالرحمنؓ سے پوچھا: عبدالرحمنؓ ! کیا اہل خانہ کیلئے بھی کچھ چھوڑا ہے؟ جناب عبدالرحمنؓ نے جواب دیا:یا رسول اللہ ﷺ ۔۔۔ میں نے ان کے پاس وہ اجر چھوڑا ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے وعدہ فرمایا ہے۔
اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپؓ نے پچاس ہزار دینار فی سبیل اللہ تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ اسلام میں سب سے بلند مرتبہ لوگ وہ سمجھے جاتے ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ انہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے زندہ اصحاب میں سے ہر ایک کو چار ہزار دینار دینے کی بھی وصیت کی۔ اپنے ورثاء کے لیے کئی ہزار اونٹ، گھوڑے اور بکریاں ترکہ میں چھوڑ گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آپؓ ہمیشہ اس دولت سے خائف رہے ۔ ایک روز آپؓ کے سامنے افطاری کا کھانا رکھا گیا ، کھانے پر آپؓ کی نظر پڑی تو آپؓ رو پڑے اور کہا: ’’مصعب بن عمیر شہید ہوئے ۔ انہیں ایک چادر میں کفنایا گیا ، اگر ان کا سرڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور اگر پاؤں ڈھانپا جاتا تو سرننگا ہو جاتا۔حمزہؓ شہید ہوئے ۔ ان کے کفن کیلئے ایک چادر کے سوا کچھ نہ ملا۔ پھر دنیا ہمارے سامنے خوب پھیلا دی گئی اور ہمیں اس سے بہت کچھ عطا ہوا۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں ہماری نیکی کا بدلہ ہمیں یہاں ہی نہ دیدیا جائے‘‘۔ جناب عمر فاروقؓ کے بعد نئے خلیفہ کا انتخاب ہونے لگا توکچھ مرتبہ لوگ وہ سمجھے جاتے ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ انہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے زندہ اصحاب میں سے ہر ایک کو چار ہزار دینار دینے کی بھی وصیت کی۔ اپنے ورثاء کے لیے کئی ہزار اونٹ، گھوڑے اور بکریاں ترکہ میں چھوڑ گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آپؓ ہمیشہ اس دولت سے خائف رہے ۔ ایک روز آپؓ کے سامنے افطاری کا کھانا رکھا گیا ، کھانے پر آپؓ کی نظر پڑی تو آپؓ رو پڑے اور کہا: ’’مصعب بن عمیر شہید ہوئے ۔ انہیں ایک چادر میں کفنایا گیا ، اگر ان کا سرڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور اگر پاؤں ڈھانپا جاتا تو سرننگا ہو جاتا۔حمزہؓ شہید ہوئے ۔ ان کے کفن کیلئے ایک چادر کے سوا کچھ نہ ملا۔ پھر دنیا ہمارے سامنے خوب پھیلا دی گئی اور ہمیں اس سے بہت کچھ عطا ہوا۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں ہماری نیکی کا بدلہ ہمیں یہاں ہی نہ دیدیا جائے‘‘۔ جناب عمر فاروقؓ کے بعد نئے خلیفہ کا انتخاب ہونے لگا توکچھ جید صحابہؓ جناب ابن عوفؓ کی طرف اشارے کرنے لگے ۔ اس موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا:’’اللہ کی قسم! اگر چھری لے کر میرے حلق پر رکھ دی جائے اور پھر اسے ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دیا جائے تو یہ چیز مجھے خلافت سے زیادہ پسند ہے‘‘۔کیا کسی اہلِ اقتدار نے اس بات پہ غور کیا۔
یہ ہے اسلام کے ایک مالدار اور دولت مند شخص کی کہانی۔ کوئی ہے جو عبدالرحمن بن عوف کی اس روایت پہ چل سکے۔ کوئی بادشاہ‘ سلطان‘ شیخ‘ کوئی وزیرِ اعظم ‘ کوئی صدر ‘ کوئی گورنر‘ کوئی مشیر۔حضرت ابن عوفؓ اپنے مال کے غلام نہیں مالک تھے یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتا۔ مالک وہ ہوتا ہے جو اپنا مال بانٹ دیتا ہے اور غلام وہ ہے جو اسے سنبھال کے رکھتا ہے۔